غزل
کتنے مہان لوگ جہاں سے گزر گئے
کیا چیز ہیں ہم آپ کہ جب وہ بھی مر گئے
افسوس ہم تو عشق کی باتیں ہی کر گئے
اک گرد اٹھی وبا کی چَھٹی تو نظر پڑی
ہائے وہ اقربا وہ احبّا کدھر گئے
غیروں کو کیا خبر مزے اپنوں سے وصل کے
تم جانو موت اس کو میاں ہم تو گھر گئے !
آخر کُھلا پڑا جو بتوں سے معاملہ
ہم جی ہی جی میں خوش تھے کہ ہم بھیسدھر گئے
اے دوست تیرے پاس ہم آئے کہ ہنس سکیں
تو نے سنائی وہ ہمیں باچشمِ تر گئے
معراج کیا تھی ایک ملاقاتِ دوستاں
وہ دیکھنے کو واقعہ لمحے ٹھہر گئے
چل پڑنا ہی تو اصل ہے شہ راہِ دوست میں
منزل ملی انھیں بھی جو رستے میں مر گئے
اک باخدا کی خوش نظری کام کر گئی
آۓ تھے شاہ ملنے لگا کے نظر گئے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں