دل دیکھ رہے ہیں کبھی جاں دیکھ رہے ہیں
اٹھتا ہے کہاں سے یہ دھواں دیکھ رہے ہیں
اک روزنِ زنداں سے جہاں دیکھ رہے ہیں
خود ہم ہیں کہاں اور کہاں دیکھ رہے ہیں
Bay-laag,a blog by Yasir Shah
کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے
خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے
کیسی ہیں آپ عافیہ؟، ہم عافیت سے ہیں
پُر ہے شکم ،بفضل و کرم عافیت سے ہیں
جالب وفات پا چکے، ہم عافیت سے ہیں
اس دور کے سب اہل قلم عافیت سے ہیں
مرے آس پاس تھے آپ بھی میں جہاں جہاں سے گزر گیا
ابھی سوچتا ہوں کبھی کبھی میں کہاں کہاں سے گزر گیا
کبھی واپسی میں جو دیر ہو مرے اہلِ خانہ کی خیر ہو
میں تری طلب ترے شوق میں حدِ آشیاں سے گزر گیا
ماہ و خورشید بھی سفر میں ہیں
شؔاہ صاحب ہنوز گھر میں ہیں
کیا عجب دل میں بھی اتر جائیں
الله والوں کی ہم نظر میں ہیں
کتنے قضیوں کے یوں ہی حل نکلے
راہ لی اپنی اور چل نکلے
آدمی ہو کہ تم گدھے ہو میاں!
کاہے کو اس قدر اٹل نکلے؟
میری غزلیں تو گنگناؤ گے
درد میرا کہاں سے لاؤ گے ؟
بھیگو برسات میں کہ رات گئے
کس کا دروازہ کھٹکھٹاؤ گے ؟