Click the following to read ,discover & explore

 غزل


ایسی ہستی خدا کی ہستی ہے 

دل کی گہرائیوں میں بستی ہے 


دل تڑپتا ہے ان سے ملنے کو 

چشم دیدار کو ترستی ہے 


جب بھی دل سے پکارتا ہوں انھیں 

دل میں پھوہار سی برستی ہے 


خوں بہا خونِ دل کا ہے وہ ذات 

دو جہاں کے عوض جو سستی ہے 


اب تو عالم دگر ہے اس دل کا 

اب تو مستی سی ایک مستی ہے 


اب اگر چھٹتا ہے جہاں چھٹ جائے 

اب تو آنکھوں میں اور بستی ہے


جس بلندی سے لوگ چھوٹے لگیں 

وہ بلندی بھی شاؔہ پستی ہے ​




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں