غزل
ایسی ہستی خدا کی ہستی ہے
دل کی گہرائیوں میں بستی ہے
دل تڑپتا ہے ان سے ملنے کو
چشم دیدار کو ترستی ہے
جب بھی دل سے پکارتا ہوں انھیں
دل میں پھوہار سی برستی ہے
خوں بہا خونِ دل کا ہے وہ ذات
دو جہاں کے عوض جو سستی ہے
اب تو عالم دگر ہے اس دل کا
اب تو مستی سی ایک مستی ہے
اب اگر چھٹتا ہے جہاں چھٹ جائے
اب تو آنکھوں میں اور بستی ہے
جس بلندی سے لوگ چھوٹے لگیں
وہ بلندی بھی شاؔہ پستی ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں