سی ویو (sea view )
کتنے گہرے پانی سے اٹھ کر موج اک ساحل پر آئی ہے
کتنی امنگیں، کتنی ترنگیں، خواب سجا کر لائی ہے
ساحل پر اک بھاری پتھر سرگرمِ تنہائی ہے
قسمت موج کی پھوٹ گئی جا پتھر سے ٹکرائی ہے
ٹکّر مار کے چکر کاٹا سنگ ہلا نہیں پائی ہے
سچ ہے سنگ سے عشق میں آگے بڑھنا بھی پسپائی ہے
ہارے ہوئے قدموں سے چل کر ساگر کو لوٹ آئی ہے
لگتا ہے شرمندہ بہت ہے جی جی میں پچھتائی ہے
جس نے دیکھا ہے یہ تماشہ آنکھ اس کی بھر آئی ہے
ایک تو ظالم ٹھہرا دوجی بیچاری کہلائی ہے
رمز جو اس نظارے میں ہے رمز وہ کس نے پائی ہے
لہر تو پھر پتھر ڈھونڈے گی لہر تو پھر ہرجائی ہے
بیچارہ تو سنگ ہے جس نے مفت میں ٹھوکر کھائی ہے
خوش تھا جس خشکی پر اب وہ پھسلن ہے چکنائی ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں