غزلیں نظمیں ترجمانیاں نثرپارے
Loading poetry...

سی ویو (sea view )

 


 کیسے گہرے پانی سے اٹھ کر ساحل پر موج آئی ہے  

کتنی امنگیں، کتنی ترنگیں، خواب سجا کر لائی ہے 



ساحل پر اک بھاری پتھر سرگرمِ تنہائی ہے 

قسمت موج کی پھوٹ گئی جا پتھرسے ٹکرائی ہے 



ٹکّر مار کے چکر کاٹا سنگ ہلا نہیں پائی ہے 

عشق کیا ہے پتھر سے سو حاصل اب پسپائی ہے 



ہارے ہوئے قدموں سے چل کر  ساگر کو لوٹ آئی ہے 

لگتا ہے شرمندہ بہت ہے جی جی میں پچھتائی ہے 



جس نے دیکھا ہے یہ تماشا آنکھ اس کی بھر آئی ہے 

ایک تو ظالم ٹھہرا دوجی بیچاری کہلائی ہے 

 


چھپی ہے جو اس نظارے میں رمز وہ کس نے پائی ہے 

لہر تو پھر پتھر ڈھونڈے گی  لہرآخرہرجائی ہے 



بیچارہ تو سنگ ہے جس نے مفت میں ٹھوکر کھائی ہے 

خوش تھا جس خشکی پر اب وہ پھسلن ہے چکنائی ہے 



ترجمہ

تلاش