Click the following to read ,discover & explore



 غزل 


مرے آس پاس تھے آپ بھی میں جہاں جہاں سے گزر گیا

ابھی سوچتا ہوں کبھی کبھی میں کہاں کہاں سے گزر گیا 



کبھی واپسی میں جو دیر ہو مرے اہلِ خانہ کی خیر ہو 

میں تری طلب ترے شوق میں حدِ آشیاں سے گزر گیا 



ابھی دل ہیں زخم سے بے خبر ذرا گفتگو کریں سوچ کر 

بات اک زباں سے ادا ہوئی تیر اک کماں سے گزر گیا 



کبھی ہو سکی نہ مجاوری مجھ سے کسی بھی مزار کی 

مرا ذوق کھینچ کے آستیں ہر اک آستاں سے گزر گیا



وہ جو کفر کی بڑی دھاک تھی نہ تھی کچھ ذرا سی وہ خاک تھی

کوئی دھول آنکھوں میں جھونک کر صفِ دشمناں سے گزر گیا 



وہ جو شاہِ خانہ خراب تھا نہ تھا کام کا پہ بقولِ فیض 

جو رکا تو کوہِ گراں تھا اک جو چلا تو جاں سے گزر گیا​





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں