ماہ و خورشید بھی سفر میں ہیں
شؔاہ صاحب ہنوز گھر میں ہیں
کیا عجب دل میں بھی اتر جائیں
الله والوں کی ہم نظر میں ہیں
چشمِ حاسد نہ خود پسندی کا ڈر
لطف سادہ گزر بسر میں ہیں
سب کمائی ہمارے ہاتھوں کی ہے
جو فساد آج بحر و بر میں ہیں
چونچ ،ناخن کٹے عقابوں کے
خوش پرندے یہ بال و پر میں ہیں
دینے والوں نے جان تک دے دی
شؔاہ مصروف اگر مگر میں ہیں