Whose woods these are I think I know
His house is in the village though
He will not see me stopping here
To watch his woods fill up with snow
My little horse must think it queer
To stop without a farmhouse near
Between the woods and frozen lake
The darkest evening of the year
He gives his harness bells a shake
To ask if there is some mistake
The only other sound’s the sweep
Of easy wind and downy flake
The woods are lovely, dark and deep
But I have promises to keep
And miles to go before I sleep
And miles to go before I sleep
Robert Frost
1963–1874
یہ جنگل ہیں کس کے مجھے یہ پتا ہے
ہے گھر گاؤں میں اس کا پر لگ رہا ہے
نہ دیکھے گا کون اس کے بن میں رکا ہے
میں ہوں ،برف باری ہے ،جنگل گھنا ہے
کبھی جھیل تھی،سبزہ تھا جو وہ کیا ہے
یہاں اک جہاں منجمد ہوگیا ہے
میں کیا، میرا گھوڑا بھی حیراں کھڑا ہے
کھڑا سوچتا ہے کہ کیا ماجرا ہے
ہلاکر کے سر اپنا گاہے بگاہے
بجا کر کے گھنٹی یہی پوچھتا ہے
ٹھکانہ یہ کیسا ہے یہ کیا جگہ ہے
یہاں جان کر آۓ ہم یا خطا ہے
نہ یاں کوئی گھر ہے نہ رہنے کی جا ہے
نہ بندہ ہے کوئی نہ بندہ نما ہے
خموشی میں آتی یہ آواز کیا ہے
یہ روئی سی ہےبرف، دھیمی ہوا ہے
یونہی چلتے چلتے کہاں آ گئے ہم
فضا ہے نئی یا ہوئے ہیں نئے ہم
یہ جنگل ہیں دلکش گھنے اور گہرے
مگر میرے کچھ عہد و پیماں ہیں ٹھہرے
بہت دور جانا ہے سونے سے پہلے
سفر بھی یہ کرنا ہے تنہا اکیلے