غزل
یہ جو لڑنے جھگڑنے والے ہیں
جان لیں! سب بچھڑنے والے ہیں
کیجے کوشش کہ روح زندہ رہے
جگ سجا تھا پیا ملن کے لیے
شامیانے اکھڑنے والے ہیں
چہچہا لو پرندو خوب کہ پھر
یہ گلستاں اجڑنے والے ہیں
ق
آپ مرتے ہیں ڈر سے مرنے کے
سوچ کر یہ کہ گڑنے والے ہیں
زندہ ہم ہیں کہ خوف حشر کا ہے
گڑے مردے اکھڑنے والے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں