Click the following to read ,discover & explore

 غزل 


دل دیکھ رہے ہیں کبھی جاں دیکھ رہے ہیں 
اٹھتا ہے کہاں سے یہ دھواں دیکھ رہے ہیں 


اک روزنِ زنداں سے جہاں دیکھ رہے ہیں 
خود ہم ہیں کہاں اور کہاں دیکھ رہے ہیں 



رہ رہ کے ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں وہ سرِ بزم 
اور ہم انھیں ہو ہو کے نہاں دیکھ رہے ہیں 


آنے کو تو آپ آگئے خلوت میں ہماری 
اب کیا کریں الله میاں دیکھ رہے ہیں 


ہم بے سر و ساماں تو کبھی کے ہوئے در عشق 
خود کو ابھی بے نام و نشاں دیکھ رہے ہیں 


یہ عشق کی گرمی ہے کہ تاثیرِ نظر ہے 
پیری میں جو ہم خود کو جواں دیکھ رہے ہیں 


ہم ہونے کو قتل آئے ہیں پر ہائے ری قسمت 
دشمن کو بھی بے تیغ و کماں دیکھ رہے ہیں 


مدمست نظاروں میں بھی کافر رہے کافر 
سب دیکھ کے بد بخت کہاں دیکھ رہے ہیں !


سندھی ہیں مگر شؔاہ کی اردو ہے غضب کی 
ہیں گرمِ سخن اہلِ زباں دیکھ رہے ہیں






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں