Click the following to read ,discover & explore
غزلیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
غزلیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

 غزل 



انتہائے سخن ہے خاموشی 

حاصل انجمن ہے خاموشی 


بولنا تو ہے بعد کی ایجاد 

انتہائی کہن ہے خاموشی 

 غزل


ایسی ہستی خدا کی ہستی ہے 

دل کی گہرائیوں میں بستی ہے 


دل تڑپتا ہے ان سے ملنے کو 

چشم دیدار کو ترستی ہے 

غزل



کیسی ہیں آپ عافیہ؟، ہم عافیت سے ہیں 

پُر ہے شکم ،بفضل و کرم عافیت سے ہیں



جالب وفات پا چکے، ہم عافیت سے ہیں 

اس دور کے سب اہل قلم عافیت سے ہیں 



 غزل 


مرے آس پاس تھے آپ بھی میں جہاں جہاں سے گزر گیا

ابھی سوچتا ہوں کبھی کبھی میں کہاں کہاں سے گزر گیا 



کبھی واپسی میں جو دیر ہو مرے اہلِ خانہ کی خیر ہو 

میں تری طلب ترے شوق میں حدِ آشیاں سے گزر گیا 


غزل 



کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے 
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے 


خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ 
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے


 غزل 


دل دیکھ رہے ہیں کبھی جاں دیکھ رہے ہیں 
اٹھتا ہے کہاں سے یہ دھواں دیکھ رہے ہیں 


اک روزنِ زنداں سے جہاں دیکھ رہے ہیں 
خود ہم ہیں کہاں اور کہاں دیکھ رہے ہیں 

غزل   


میں کنودہوں، میں عجول ہوں،میں ظلوم ہوں،میں جہول ہوں

مری خوش نصیبی تو دیکھیے تجھے ہر ادا میں قبول ہوں


جسے بلبلوں نے بھلا دیاتجھے یاد ہے میں وہ بھول ہوں

تری یادپھر جو کھلا گئی میں خزاں رسیدہ وہ پھول ہوں



غزل   



یہ جو لڑنے جھگڑنے والے ہیں

جان لیں! سب بچھڑنے والے ہیں

کیجے کوشش کہ روح زندہ رہے

جسم تو گلنے سڑنے والے ہیں

غزل    


دھیمی آوازکواگنورکیاجارہاہے

اب سنانے کے لیےشورکیاجارہاہے


ہرطرف ہو رہی ہے شخصیتوں کی تائید

نظریّات کو کمزور کیا جا رہا ہے



غزل


وطن کے روگ کا لوگو علاج کرتے ہیں!

گھرانے چند ہیں جو ہم پہ راج کرتے ہیں



مرے نہیں ہیں یہ اعلان آج کرتے ہیں

ہر ایک گدھ کے خلاف احتجاج کرتے ہیں


غزل


گرنےدےگرگئی اگردستار

دونوں ہاتھوں سے تھام دستِ یار



جلدآؤتومنتظرہیں ہم

ہو گئی دیر تو درودیوار

غزل 



کتنے مہان لوگ جہاں سے گزر گئے

کیا چیز ہیں ہم آپ کہ جب وہ بھی مر گئے



افسوس ہم تو عشق کی باتیں ہی کر گئے

شاباش انھیں ہے جن کے محبّت میں سر گئے


غزل 


ماہ و خورشید بھی سفر میں ہیں

شؔاہ صاحب ہنوز گھر میں ہیں



کیا عجب دل میں بھی اتر جائیں

الله والوں کی ہم نظر میں ہیں



غزل


کتنے قضیوں کے یوں ہی حل نکلے

راہ لی اپنی اور چل نکلے


آدمی ہو کہ تم گدھے ہو میاں!

کاہے کو اس قدر اٹل نکلے؟

غزل


میری غزلیں تو گنگناؤ گے

درد میرا کہاں سے لاؤ گے ؟


بھیگو برسات میں کہ رات گئے

کس کا دروازہ کھٹکھٹاؤ گے ؟