غزل
کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے
خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے
آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے
بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے
آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے
حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
شؔاہ سنو! راحت سی راحت ہے چپ شاہ کے روزے میں
گرہ زباں کی کھلے تو پھر یہ دل آزاری کرتی ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں