نعلینِ خستہ حال او نعلینِ خستہ حال
میں اہم تھا، ایک وہم تھا
میں ہوں شاید وہ مخصّص آدمی
جس کی محفل میں ہے شدت سے کمی
میرے ہونے سے خوشی اور خُرّمی
اور نہ ہونے سے ہے آنکھوں میں نمی
میں نہیں تو انجمن ویران ہے
میرے ہونے سے ہی محفل بھی جمی
الغرض تھیں کتنی ہی خوش فہمیاں
نبضِ ہستی جب نہ تھی اب تک تھمی
مر کے سنتا ہوں اب اپنا ذکرِخیر
"آہ تھا مرحوم اچھا آدمی "
صداۓ درویش
بستی بستی قریہ قریہ رب سے لگا کر لو چلیے
ان کو اپنا کر چلیے اور خود بھی ان کے ہو چلیے
راہِ طلب میں چلتے رہنا کام ہے اپنا سو چلیے
وہ نہ ملیں بھی تو رک مت جائیے آپ تو خود کو کھو چلیے
آدھے خدا کے آدھے جہاں کے ایسے مُخنّث مت بنیے
مردِ خدا بنیے اور ان کے پورے کے پورے ہو چلیے
جوڑنے والوں سے سب جڑتے ہیں جوڑیے توڑنے والوں سے
نفس کو مار کے مل جاتی ہے ایک حیاتِ نو چلیے
پھر وقت نہ ہو گا..... (ایک مکالماتی نظم )
روتے ہوئے بچے مجھے اچھے نہیں لگتے
روئیں نہ اگر بچے تو بچے نہیں لگتے
بچے وہی اچھے ہیں جو بیٹھے رہیں چپ چاپ
بچے ہی کہاں رہ گئے پھر وہ تو ہوئے باپ
میں اور تم
جب جنگیں مسلط ہوتی ہیں
گیہوں میں گھن بھی پستا ہے
خوں سرخ ہو چاہے سفید پڑے
اسے رسنا ہے سو رستا ہے
اوپر سے بم جب گرتے ہیں
کب پوچھتے ہیں تم کون میاں
ملّا کیا ہے مسٹر ہے کون
جب آگ لگی تفریق کہاں
بغاوت
جسموں سے مجاہد روحوں نے
اب کھل کے بغاوت کر دی ہے
سی ویو (sea view )
پیا ملن کی چاہ
جس نے بنایا ہے پیاروں کو خود وہ کتنا پیارا ہوگا
ہائے وہ دن بھی کیا دن ہوگا جب اس کا نظّارہ ہوگا
کیا یہی پلکیں وہاں بھی ہوں گی اور اسی ڈھب سے جھپکیں گی ؟
کیا یہی آنکھ وہاں بھی ہوگی ' چھوٹا سا آنکھ کا تارا ہوگا ؟
لبرل گیدڑ
تضمین بر شعر منیر ( بزبانِ حالِ شہید)
کچھ اپنے دشمن ہم بھی تھے
کچھ شہر میں اہلِ ستم بھی تھے
کچھ سارے جہاں کا درد بھی تھا
کچھ اپنے ہم کو غم بھی تھے
تاویل
نظم ہم نے جویہ حکایت کی
ابنِ جوزیؒ سے ہے روایت کی
ایک دن ایک سگ نے ہمّت کی
شیر کے آگے جا شکایت کی
تَوَلّا
صِدّیقؓ کا جو عشق ہےصِدّیق ہی تو ہے
کرتا ہے مُہر ثبت بر ایمانِ قلب و جاں
فاروقؓ کا جو عشق ہے فاروق ہی تو ہے
کرتا ہے فرق مومن و کافر کے درمیاں
