مندرجہ ذیل کسی عنوان پہ کلک کرکے اس سے منسلک تحاریر پڑھی جا سکتی ہیں

سیاسی تقریروں کا سحر

آج کل ان لوگوں کےحواس پر بھی سیاسی بیانیے چھاۓ ہوئے ہیں جن کا سیاست سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں -میرا بھی یہ حال ہے کہ نماز میں تعوذ پڑھتے ہوئے جب "...من الشیطان الرجیم" پہ پہنچتا ہوں توعمران خان کی"رجیم چینج "(regime change)اصطلاح یاد آجاتی ہے -وجہ یہی ہے کہ بندہ بھی عمران خان کی تقاریر کے سحر میں مبتلا ہے -پہلے میں سمجھتا تھا مولانارومی نے صرف فارسی شاعری کی ہے مگر خان صاحب کی دو ایک تقاریر سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اردو کے اقوال زریں بھی لکھ رکھیں ہیں -ایک قول تو ان کا خان صاحب کو ازبر ہے جس کو بہت سی تقریروں میں پیش کر چکے ہیں کہ مولانارومی فرماتے ہیں اے انسانو (پاکستانیو )!تم کو الله تعالیٰ نے پر عطا کیے ہیں تم زمین پر چیونٹیوں کی طرح کیوں رینگ رہے ہو -اب پتا نہیں یہ واقعی مولانارومی نے فرمایا ہے یا یہ وہی پاکستانیوں کی پرانی عادت ہے کہ فرماتے خود ہیں اور الزام رکھتے ہیں مولانارومی،اقبال اور احمد فراز وغیرہ پر -

بہرحال یہ تحقیق ہونی چاہیے کہ یہ فرمودہ مولانا رومی کا ہے بھی کہ نہیں -انھی کا ہے تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ اردو میں کہا گیا ہے یا فارسی میں -اگر فارسی میں کہا گیا ہے تو آیا یہ شعر ہے کہ نثر -اگر فارسی شعر ہے توشعر اپنی اردو نثر چھوڑ کر کہاں غائب ہو گیا ہے ؟-اب یہ تحقیق کرے گا کون ؟ ظاہر ہے خان صاحب تو نہیں کریں گے کہ ان کا کام ہے فرمانا اور بقول میر :"مستند ہے میرا فرمایا ہوا" احقر بھی خود کو تحقیق کامردِمیدان نہیں سمجھتا البتہ مفت مشورہ دیناہم پاکستانیوں کا اولین حق ہے سو وہ حاضر ہے -

میری راۓ میں تحقیق کی ذمّے داری یا تو سائنسی میدان کے سرخیلوں کو سونپنی چاہیے یا پھر جے یو آئی پارٹی کو -اگر تحقیق سے پتا چلا کہ واقعی یہ مولانا رومی کا ملفوظ ہے تو سائنسدان بغلیں بجائیں گے کہ یوں ڈارون کے ارتقائی نظریات کو تقویت مل سکتی ہے -آپ سوچ رہے ہوں گے وہ کس طرح ؟-وہ اس طرح کہ پھر سائنسدان کہہ سکتے ہیں کہ مولانا کےقول سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے کے انسانوں کے پاس پر تھے - مولانا نے انھیں بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ ان پروں کو کام میں لے آؤ اور آسمانوں میں اڑوکیونکہ جو اعضاۓ انسانی استعمال نہ ہوں گےوہ بتدریج مختصرہوتے ہوتے ایک دن معدوم ہو جائیں گے -لوگوں نے مولانا کی ایک نہ سنی ،فرش پہ دھرے رہے،چیونٹیوں کی طرح رینگتے رہے اور یوں وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ آج کے انسان کے پاس پر نہیں -

بالفرض اگر تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ قول مولانارومی کا نہیں تو جے یو آئی والے جشن منائیں گے کہ یوں ان کے بیانیے کو تقویت ملے گی کہ عمران خان یہودی ایجنٹ ہے -یعنی ایک تووہ ارتقائی باطل نظریات کا قائل ہے پھر ان نظریات کو مسلمانوں کی مقدّس ہستی مولانارومی کی طرف غلط منسوب کر رہا ہے -اللہ اللہ خیر سلّا-

مولانا رومی کا ایک اور اردو قول خان صاحب نے اپنی تقریر میں نقل کیا کہ جو قومیں حق اور باطل میں تمیز نہیں کرتیں وہ ہلاک ہو جاتی ہیں -اس قدر آفاقی سچائی وہ خود بھی کہہ دیتے تو بات میں وزن قائم رہتا -جو مجمع ان کے سامنے تھا وہ تو مولانا سے زیادہ انھی سے مرعوب ہے -مولانا رومی نے فرمایافرمانے کی کیا ضرورت تھی -شاید یہی تاثر دینا مقصود ہو کہ مولانا رومی کی روح بھی پی ڈی ایم کے خلاف اور میرے حق میں ہے -

کوئی دن جاتا ہے کہ یہ قول بھی مارکیٹ میں گردش کرنے لگے کہ مولانا رومی نے فرمایا: "فیصلہ ضمیر کا ووٹ عمران خان کا"-آپ سوچیں گے کہ ضمیر اور بے نظیر کا جوڑ تو بنتا ہے ضمیر اور عمران خان کا تو کوئی جوڑ ہی نہیں-تو بات یہ ہے کہ ہماری سیاست میں سب چیزیں بےجوڑ ہی چل رہی ہیں -ایک عوامی قصّہ مشہور ہے کہ ایک تیلی نے جاٹ سے کہا:"جاٹ رے جاٹ! تیرے سر پر کھاٹ" -جاٹ نےجواب دیا :تیلی رے تیلی! تیرے سر پر کولھو" -کسی نے جاٹ سے کہا: "یہ تو بے وزن بات ہے ،کہاں تیلی کہاں کولھو " -جاٹ بولا:"وزن چاہے نہ ہو،تیلی کولھو کے بوجھ تلے تو دبے گا نا" -تو بات یہ ہے کہ ہماری قوم بھی تقریروں کے بوجھ تلے دب چکی ہے-

سیاسی تقریر کا سحر اتارنے کا ایک ہی علاج ہے -جس طرح ہر وائرس کا توڑ اینٹی وائرس ہے ،کسی کی وائرل تقریر سننے کے بعد اس کے مخالف کی تقریر سن لی جاۓ اینٹی وائرس کا کام کرے گی - اگر آپ عمران خان کی تقریر کے سحر میں مبتلا ہیں فوراً مولانا فضل الرحمٰن کی تقریر سنیں،سحر ٹوٹ جاۓ گا - ڈوز بھی برابرکاہوناچاہیے- وائرس جس قدر ہو،اینٹی وائرس بھی اسی قدر ہو یوں نہ ہو کہ ایک کے تو بیسیوں بھڑکاؤ بھاشن سن رکھیں ہوں اور دوسرے کی ایک تقریر بھی پوری نہ سنی ہو -جب سحر اتر جاۓ گا تو ان شاء الله پرانی دوستیاں اور رشتے داریاں بحال ہو جائیں گی جو سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے ٹوٹ گئی تھیں -


1 تبصرہ: