Click the following to read ,discover & explore

 بغاوت




جسموں سے مجاہد روحوں نے
 
اب کھل کے بغاوت کر دی ہے 


کہتی ہیں ہمیں دلشاد کرو 

آزاد کرو________ آزاد کرو 

 غزل 



انتہائے سخن ہے خاموشی 

حاصل انجمن ہے خاموشی 


بولنا تو ہے بعد کی ایجاد 

انتہائی کہن ہے خاموشی 

 سی ویو (sea view )


کتنے گہرے پانی سے اٹھ کر موج اک ساحل پر آئی ہے 

کتنی امنگیں، کتنی ترنگیں، خواب سجا کر لائی ہے 



ساحل پر اک بھاری پتھر سرگرمِ تنہائی ہے 

قسمت موج کی پھوٹ گئی جا پتھر سے ٹکرائی ہے 

 غزل


ایسی ہستی خدا کی ہستی ہے 

دل کی گہرائیوں میں بستی ہے 


دل تڑپتا ہے ان سے ملنے کو 

چشم دیدار کو ترستی ہے 

غزل



کیسی ہیں آپ عافیہ؟، ہم عافیت سے ہیں 

پُر ہے شکم ،بفضل و کرم عافیت سے ہیں



جالب وفات پا چکے، ہم عافیت سے ہیں 

اس دور کے سب اہل قلم عافیت سے ہیں 



 پیا ملن کی چاہ 



جس نے بنایا ہے پیاروں کو خود وہ کتنا پیارا ہوگا 

ہائے وہ دن بھی کیا دن ہوگا جب اس کا نظّارہ ہوگا 


کیا یہی پلکیں وہاں بھی ہوں گی اور اسی ڈھب سے جھپکیں گی ؟

کیا یہی آنکھ وہاں بھی ہوگی ' چھوٹا سا آنکھ کا تارا ہوگا ؟ 



 غزل 


مرے آس پاس تھے آپ بھی میں جہاں جہاں سے گزر گیا

ابھی سوچتا ہوں کبھی کبھی میں کہاں کہاں سے گزر گیا 



کبھی واپسی میں جو دیر ہو مرے اہلِ خانہ کی خیر ہو 

میں تری طلب ترے شوق میں حدِ آشیاں سے گزر گیا 


غزل 



کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے 
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے 


خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ 
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے


 غزل 


دل دیکھ رہے ہیں کبھی جاں دیکھ رہے ہیں 
اٹھتا ہے کہاں سے یہ دھواں دیکھ رہے ہیں 


اک روزنِ زنداں سے جہاں دیکھ رہے ہیں 
خود ہم ہیں کہاں اور کہاں دیکھ رہے ہیں 

 اردو محفل کے نام 



جب بزم سے جاتے ہیں 

اس عزم سے جاتے ہیں 

آئیں گے نہ دوبارہ 

پر دل دلِ بیچارہ 

 احساس 


تم نے کبھی محسوس کیا ہے 
یاں کتنی خاموش فضا ہے 

فضا کی اپنی ہے خاموشی 
خاموشی کی اپنی فضا ہے 
 وہ بچپن کی ایک بات

بچپن میں ہم کسی کی ناشائستہ اور غیرمہذب بات کا ایک شائستہ اور مہذب جواب اس فقرے سے دیا کرتے تھے :"آدمی جیسا خود ہوتا ہے ویسا ہی دوسروں کو سمجھتا ہے -" کسے خبر تھی کہ یہ معصومانہ، بھولا بھالا ،ننھا منا اور سادہ سا جملہ اپنے اندر ایک بڑا فلسفہ رکھتا ہے -اب جب ایک عمر گزر چکی تو معلوم ہوا کہ اس جملے میں، جسے ہم سرسری طور پر کہتے تھے ، زندگی کا ایک بڑا راز پوشیدہ ہے بقول مجذوبؒ :

بظاہر یہ ہیں چھوٹی چھوٹی سی باتیں 
جہاں سوز لیکن یہ چنگاریاں ہیں ​

غزل   


میں کنودہوں، میں عجول ہوں،میں ظلوم ہوں،میں جہول ہوں

مری خوش نصیبی تو دیکھیے تجھے ہر ادا میں قبول ہوں


جسے بلبلوں نے بھلا دیاتجھے یاد ہے میں وہ بھول ہوں

تری یادپھر جو کھلا گئی میں خزاں رسیدہ وہ پھول ہوں



غزل   



یہ جو لڑنے جھگڑنے والے ہیں

جان لیں! سب بچھڑنے والے ہیں

کیجے کوشش کہ روح زندہ رہے

جسم تو گلنے سڑنے والے ہیں

غزل    


دھیمی آوازکواگنورکیاجارہاہے

اب سنانے کے لیےشورکیاجارہاہے


ہرطرف ہو رہی ہے شخصیتوں کی تائید

نظریّات کو کمزور کیا جا رہا ہے



غزل


وطن کے روگ کا لوگو علاج کرتے ہیں!

گھرانے چند ہیں جو ہم پہ راج کرتے ہیں



مرے نہیں ہیں یہ اعلان آج کرتے ہیں

ہر ایک گدھ کے خلاف احتجاج کرتے ہیں


غزل


گرنےدےگرگئی اگردستار

دونوں ہاتھوں سے تھام دستِ یار



جلدآؤتومنتظرہیں ہم

ہو گئی دیر تو درودیوار

لبرل گیدڑ 


ایک گیدڑکی کٹی دم جو کہیں

کی بیاباں کو بلا کر تقریر



ہائے کمبخت بری چیز ہے پونچھ

پشت سے گویا لٹکتی زنجیر