غزلیں نظمیں ترجمانیاں نثرپارے
Loading poetry...

وہ بچپن کی ایک بات​


بچپن میں ہم کسی کی ناشائستہ اور غیرمہذب بات کا ایک شائستہ اور مہذب جواب اس فقرے سے دیا کرتے تھے :"آدمی جیسا خود ہوتا ہے ویسا ہی دوسروں کو سمجھتا ہے -" کسے خبر تھی کہ یہ معصومانہ، بھولا بھالا ،ننھا منا اور سادہ سا جملہ اپنے اندر ایک بڑا فلسفہ رکھتا ہے -اب جب ایک عمر گزر چکی تو معلوم ہوا کہ اس جملے میں، جسے ہم سرسری طور پر کہتے تھے ، زندگی کا ایک بڑا راز پوشیدہ ہے بقول مجذوبؒ :


بظاہر یہ ہیں چھوٹی چھوٹی سی باتیں 

جہاں سوز لیکن یہ چنگاریاں ہیں ​

اردو محفل کے نام

 

جب بزم سے جاتے ہیں 

اس عزم سے جاتے ہیں 


آئیں گے نہ دوبارہ 

پر دل دلِ بیچارہ 

غزل ​


دل دیکھ رہے ہیں کبھی جاں دیکھ رہے ہیں 

اٹھتا ہے کہاں سے یہ دھواں دیکھ رہے ہیں 


اک روزنِ زنداں سے جہاں دیکھ رہے ہیں 

خود ہم ہیں کہاں اور کہاں دیکھ رہے ہیں 

غزل

 

گرنےدےگرگئی اگردستار

دونوں ہاتھوں سے تھام دستِ یار


جلدآؤتومنتظرہیں ہم

ہو گئی دیر تو درودیوار

پھر وقت نہ ہو گا..... (ایک مکالماتی نظم )

  

روتے ہوئے بچے مجھے اچھے نہیں لگتے

روئیں نہ اگر بچے تو بچے نہیں لگتے


بچے وہی اچھے ہیں جو بیٹھے رہیں چپ چاپ

بچے ہی کہاں رہ گئے پھر وہ تو ہوئے باپ

The night has a thousand eyes

 The night has a thousand eyes

And the day but one

Yet the light of the bright world dies

With the dying sun


The mind has a thousand eyes

And the heart but one:

Yet the light of a whole life dies

When love is done


― Francis William Bourdillon


میں اور تم


جب جنگیں مسلط ہوتی ہیں 

گیہوں میں گھن بھی پستا ہے 

خوں سرخ ہو چاہے سفید پڑے 

اسے رسنا ہے سو رستا ہے 


اوپر سے بم  جب گرتے ہیں 

کب  پوچھتے ہیں  تم کون میاں 

ملّا جی اور مسٹر  کے بیچ 

جب آگ لگی تفریق کہاں 


غزل

 


کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے 

رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے 



خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ 

تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے

احساس

 

تم نے کبھی محسوس کیا ہے 
یاں کتنی خاموش فضا ہے 

فضا کی اپنی ہے خاموشی 
خاموشی کی اپنی فضا ہے 

بغاوت


جسموں سے مجاہد روحوں نے

اب کھل کے بغاوت کر دی ہے



کہتی ہیں ہمیں دلشاد کرو 

آزاد کرو________ آزاد کرو 

غزل


انتہائے سخن ہے خاموشی 

حاصل انجمن ہے خاموشی 


بولنا تو ہے بعد کی ایجاد 

انتہائی کہن ہے خاموشی 

سی ویو (sea view )

 


 کیسے گہرے پانی سے اٹھ کر ساحل پر موج آئی ہے  

کتنی امنگیں، کتنی ترنگیں، خواب سجا کر لائی ہے 



ساحل پر اک بھاری پتھر سرگرمِ تنہائی ہے 

قسمت موج کی پھوٹ گئی ہے پتھرسے ٹکرائی ہے 

 غزل


ایسی ہستی خدا کی ہستی ہے 

دل کی گہرائیوں میں بستی ہے 


دل تڑپتا ہے ان سے ملنے کو 

چشم دیدار کو ترستی ہے 

غزل


کیسی ہیں آپ عافیہ؟، ہم عافیت سے ہیں 

پُر ہے شکم ،بفضل و کرم عافیت سے ہیں



جالب وفات پا چکے، ہم عافیت سے ہیں 

اس دور کے سب اہل قلم عافیت سے ہیں 

پیا ملن کی چاہ



جس نے بنایا ہے پیاروں کو خود وہ کتنا پیارا ہوگا 

ہائے وہ دن بھی کیا دن ہوگا جب اس کا نظّارہ ہوگا 


کیا یہی پلکیں وہاں بھی ہوں گی اور اسی ڈھب سے جھپکیں گی ؟

کیا یہی آنکھ وہاں بھی ہوگی ' چھوٹا سا آنکھ کا تارا ہوگا ؟ 

غزل



مرے آس پاس تھے آپ بھی میں جہاں جہاں سے گزر گیا

ابھی سوچتا ہوں کبھی کبھی میں کہاں کہاں سے گزر گیا 



کبھی واپسی میں جو دیر ہو مرے اہلِ خانہ کی خیر ہو 

میں تری طلب ترے شوق میں حدِ آشیاں سے گزر گیا 

غزل   


میں کنودہوں، میں عجول ہوں،میں ظلوم ہوں،میں جہول ہوں

مری خوش نصیبی تو دیکھیے تجھے ہر ادا میں قبول ہوں


جسے بلبلوں نے بھلا دیاتجھے یاد ہے میں وہ بھول ہوں

تری یادپھر جو کھلا گئی میں خزاں رسیدہ وہ پھول ہوں



غزل   



یہ جو لڑنے جھگڑنے والے ہیں

جان لیں! سب بچھڑنے والے ہیں

کیجے کوشش کہ روح زندہ رہے

جسم تو گلنے سڑنے والے ہیں

غزل    


دھیمی آوازکواگنورکیاجارہاہے

اب سنانے کے لیےشورکیاجارہاہے


ہرطرف ہو رہی ہے شخصیتوں کی تائید

نظریّات کو کمزور کیا جا رہا ہے

لبرل گیدڑ



ایک گیدڑکی کٹی دم جو کہیں

کی بیاباں کو بلا کر تقریر



ہائے کمبخت بری چیز ہے پونچھ

پشت سے گویا لٹکتی زنجیر

ترجمہ

تلاش